کیا جُرم اور گناہ میں فرق ہوتا ہے؟

پولیس جب کسی جوان جوڑے کو پارک میں پکڑتی ہیں تو اس پر مقدمہ امن امان میں خلل ڈالنے کا درج کرتی ہے، اسلئے کہ قانون کی نظر میں کسی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ جوڑے کا آپس میں بیٹھنا، باتیں کرنا، گھومنا یا کھانا پینا کوئی جرم نہیں ہے، نہ پاکستانی قانون میں یا دنیا کسی اور جمہوریت میں اسکے لئے کوئی قانونی شق موجود ہے -
مذہب اس طرح کی میل ملاپ کو گناہ سمجھتی ہے اور گناہ وہ خلاف ورزی ہے جس کا حساب کتاب اللہ تعالٰی کو دینا پڑتا ہے نہ کسی شخص کو، گروپ کو یہاں تک کے ریاست بھی اسکی مجاز نہیں کہ اسکا حساب کتاب رکھیں -
دنیا کا ہر ایک مذہب بشمول اسلام گناہ اور جرم میں فرق کرتا ہے ، ایسے تمام افعال جسکا اپنے علاوہ کسی اور کو نقصان ہورہا ہو وہ جرائم ہیں، اور مذہب نے حکومت وقت کو اجازت دی ہے کہ ایسے تمام جرائم قابل سزا بنائے، اور شہری قانون کا حلف لیکر ایسے تمام قوانین کے پاسداری کا وعدہ کرتے ہیں، آسان الفاظ میں تمام جرائم گناہ ہوتے ہیں مگر ہر ایک گناہ جُرم نہیں ہوتا-
بہت سارے جرائم ریاست کی نظر سے چُھپ سکتے ہیں مگر اللہ تعالٰی روز قیامت انکی سزائیں متعین کریے گا اور کوئی بھی جُرم بغیر سزا یا تلافی کے نہیں چھوڑا جائے گا، نماز کا ادا نہ کرنا گناہ ہے مگر ریاست کی نظر میں یہ جُرم نہیں ہے، اسطرح اللہ تعالٰی کے بہت سارے اور احکامات جن کا تعلق خالصتاًُ ذاتی نوعیت کا ہو سارے کے سارے گناہ ہیں مگر جرائم نہیں- جرائم یعنی کسی ایسے فعل کا سرزد ہونا جس سے دوسرے کو نقصان پہنچا ہو، کا تعین نیتوں پر کیا جائے گا، اگر جُرم دانستہ ہو سزا لازمی ہوگی اگر جُرم میں حسد، بُغض اور کینہ شامل ہو تو جُرم کے ساتھ ساتھ منافقت کی سزا بھی دی جائے گا، اور خالق کا واضح اعلان ہے کہ منافق کا ٹھکانہ جہنم ہے -
معاشرے کو گناہوں سے بچانے کے لیے ٹریننگ، نصیحت یا مشورے پر زور دیا گیا ہے، اور مشورہ اور نصیحت بھی اُس صورت میں جب ایک بالغ بندہ خود رجوع کریں، مُفت مشورہ انسانی حقوق کے تناظر میں ہریسمنٹ کی ایک صورت ہے اور پاکستان میں بھی قابلِ سزا جُرم ہے -
یا ریاست خود بالواسطہ طریقوں سے اہتمام کرتی ہیں جیسے نصاب اور میڈیا کے ذریعے، والدین کو بھی زور زبردستی سے منع کیا گیا ہے اور بالواسطہ طریقے یعنی خود مثال بن جانے پر زور دیا گیا ہے
ایران اور سعودی عرب دو ایسے ممالک ہیں جہاں ریاست یا حاکم خود کو اللہ تعالٰی کا نمائندہ سمجھتے ہیں اسلئے وہ لوگوں کے گناہ و ثواب کا فیصلہ یہاں اس دنیا میں کرتے ہیں ، ایران میں باقاعدہ ایک ادارہ ہے جس کو بسیج کہتے ہیں وہ لوگوں کو گناہوں پر سزائیں دینے کا مجاز ہے، ایران اور سعودی عرب سے متاثر ہو کر پاکستان میں جماعت اسلامی یا اس کے متاثرین یہ کام ریاست اور قانون کی خلاف ورزی کرکے کرتے ہیں -
نفسیاتی لحاظ سے کوئی ایسی ٹریننگ یا نصیحت کھبی بھی کارگر ثابت نہیں ہوتی جب تک نصیحت کرنے والا خود ایک اسوہ، نمونہ یا مثال نہ ہو، اگر مثال موجود ہو پھر بولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی - ذاتی مثال سے عاری شخص کو ہی بولنے کی ذیادہ ضرورت ہوتی ہے -
x

Comments

Popular posts from this blog

علمی تَسلسٌل