پولیس جب کسی جوان جوڑے کو پارک میں پکڑتی ہیں تو اس پر مقدمہ امن امان میں خلل ڈالنے کا درج کرتی ہے، اسلئے کہ قانون کی نظر میں کسی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ جوڑے کا آپس میں بیٹھنا، باتیں کرنا، گھومنا یا کھانا پینا کوئی جرم نہیں ہے، نہ پاکستانی قانون میں یا دنیا کسی اور جمہوریت میں اسکے لئے کوئی قانونی شق موجود ہے - مذہب اس طرح کی میل ملاپ کو گناہ سمجھتی ہے اور گناہ وہ خلاف ورزی ہے جس کا حساب کتاب اللہ تعالٰی کو دینا پڑتا ہے نہ کسی شخص کو، گروپ کو یہاں تک کے ریاست بھی اسکی مجاز نہیں کہ اسکا حساب کتاب رکھیں - دنیا کا ہر ایک مذہب بشمول اسلام گناہ اور جرم میں فرق کرتا ہے ، ایسے تمام افعال جسکا اپنے علاوہ کسی اور کو نقصان ہورہا ہو وہ جرائم ہیں، اور مذہب نے حکومت وقت کو اجازت دی ہے کہ ایسے تمام جرائم قابل سزا بنائے، اور شہری قانون کا حلف لیکر ایسے تمام قوانین کے پاسداری کا وعدہ کرتے ہیں، آسان الفاظ میں تمام جرائم گناہ ہوتے ہیں مگر ہر ایک گناہ جُرم نہیں ہوتا- بہت سارے جرائم ریاست کی نظر سے چُھپ سکتے ہیں مگر اللہ تعالٰی روز قیامت انکی سزائیں متعین کریے گا اور کوئی بھی جُرم بغیر سزا ی...
ایک پتھر جس کو شیطان سمجھ کر پتھر مارنا، ایک گھر پتھروں سے بنا کر اسکو اللہ کا گھر سمجھنا، پھر اسکا طواف کرنا، حضرت اسماعیل علیہ السلام ک ی ماں کی سُنت میں دوڑنا، ایک جانور کو ذبح کرنا اللہ کے لیے، ایک گھوڑے پر چادر ڈال کر اسے شبیر کا زلجناح سمجھنا, ماں باپ یا بزرگوں کو جُھک کے ملنا یا اُنکا ہاتھ چومنا اور بہت سے اور، یہ سارے Symbolic عمل ہے، ایسی علامتیت ہر ایک مذہب اور ثقافت میں ہوتی ہے ، انکے بغیر مذاہب نامکمل ہیں مُِچل فُوکو کے مطابق ان علامات اور انکی معنی کو سمجھنے کے لیے اُس کمیونٹی کا حصہ بننا ضروری ہے جہاں انکی پریکٹس کی جاتی ہے، مثلاً اسلام کے سیمبالک اقدار سے نابلد انگریز ہمیں ایک پتھر کو شیطان سمجھ کر پتھر مارتے ہوئے دیکھ کر بمشکل اپنی جاہلانہ ہنسی روک سکے گا، یہی حال ایک مسلمان کا ایک یہودی کو ایک دیوار کے ساتھ گریہ کرتے ہوئے دیکھ کر ہوگا- اسی طرح مُحَرم کا ہر ایک عمل سیمبالک ہے، ایک جاہل فرقہ پرست ان سارے سیمبالک ایکشنز کو صرف انجوائے کرسکتا ہے یا بدعت سمجھ کے لعن طعن ہی کرسکتا ہے - سیمبالزم جہالت نہیں، بلکہ انکا نفع و نقصان کے ترازو میں یا سیاق و سباق سے ہٹ کر ...
جب کوئی سماجی یا سیاسی بیانیہ تخلیق ہوتا ہے تو بطور لسانیات کے سٹوڈنٹس ہمارے پاس یہ چیک کرنے کے لیے کچھ پیرامیٹرز موجود ہیں بعض پیرامیٹرز بہت ذیادہ سائنٹفک اور Systematic ہوتے ہیں اور ان پر کی گئی عقلی استدلال بہت ذیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے - کسی بھی بیانیے کے علاقائی یا غیر علاقائی وجود کو چیک کرنے کے لیے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیانیہ کس کس لیول پر موجود ہے - مثلاً کیا جو سیاسی یا سماجی بیانیہ میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے کیا وہ دوسرے بیانیوں میں بھی موجود ہے کیا اسکی Representations علاقائی شاعری، علاقائی اور ثقافتی کہانیوں، ٹپے یا گانوں میں بھی ہے کہ نہیں، اگر یہ بیانیہ علاقائی طور پر مختلف صورتوں میں موجود ہے تو یہ الزام بے بنیاد بن جاتا ہے کہ اسکے پیچھے کوئی باہر کا دشمن ہے، کیونکہ علاقائی سطح پر خاص طور پر وہ لوگ جو نہ الیکٹرانک میڈیا سے متاثر ہیں نہ انھوں نے کبھی سوشل میڈیا استعمال کیا ہوا ان پر یہ الزام لگانا کہ انکے جذبات، احساسات اور درد کے پیچھے باہر کا دشمن ہے ایک عقل سے ماورا الزام اور استدلال ہے، ایسے احساسات اور جذبات کے عوامل لوکل...
Comments
Post a Comment