Why we Teach Science

ہم سائنس پڑھاتے کیوں ہے -یہ سوال کہ سائنس میں کیا کس لیول پڑھانا چاہیے، سے پہلے ہمیں خود سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سائنس کیوں پڑھانا چاہتے ہیں -میرے خیال میں ہم سے بہت سوں کو یہ پتہ ہے کہ ہم سکول کالج اور یونیورسٹی لیول پر سائنس کیوں پڑھاتے ہیں -ایک سادہ سا جواب تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہم سائنس بطور سبجیکٹ اسلئے پڑھاتے ہیں کہ ہم ملک کو سائنس دان دے سکیں - مگر میرے خیال میں یہ پورا سچ نہیں ہے، کسی بھی معاشرے کے لئے سائنس پڑھانے کے مندرجہ ذیل مقاصد ہونے چاہیے -1- ابتدائی تعلیم یعنی میٹرک تک مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم سائنسی سوچ پروان چڑھا سکے -2- ایف ایس سی تک سائنس کے بڑے بڑے اصولوں سے آگاہی مقصد ہوسکتا ہے -
3- گریجویشن میں سبجیکٹ سپیشلائزیشن مقاصد میں ہوتا ہے-
4- اور ہائیر ایجوکیشن میں تحقیق و تنقید کو پروان چڑھانا مقاصد میں شامل ہے -
اگر ہم ابتدائی تعلیم کے مقاصد کو دیکھ لیں تو یہ بالکل واضح ہے کہ کانٹینٹ(Content) سے ذیادہ میتھاڈالوجی (Methodology) اہم ہے -
سائنسی طریقے میں چونکہ آبزرویشن (Observation) کو بنیادی حیثیت شامل ہے اسلئے کتابی فارمولوں سے ذیادہ سائنٹیفک فیلڈ کا ہونا بہت ضروری ہے - لیبارٹریاں سائنسی آبزرویشن کے لیے سائنسی فیلڈ کا کام دیتی ہے اسکے علاوہ باغ باغیچے پہاڑ دریا بھی سائنٹفک فیلڈ ہوتے ہیں -
سائنسی سوچ سے سائنسی رویے پروان چڑھتے ہیں،
آبزرویشن کے لیے فرسٹ ہینڈ مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی بھی نتیجہ قائم کرنے سے پہلے ایک مخصوص طریقہ کار کو فالو کرنا پڑتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے صبر سے کام لینا پڑتا ہے، کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے دوسروں کے رائے کو بھی دیکھنا پڑتا ہے - ایک ویلِڈ رائے کے لئے ضروری ہے کہ سیمپل اتنا ہو کہ جس کو نمائندہ کہا جاسکے، ایک دو سنی سنائی باتوں پر نتیجے نکالنا کسی سائنسی سوچ رکھنے والے بندے کا طریقہ کار نہیں ہوسکتا ہے،
اسطرح معاشروں میں ٹہراو آتا ہے، سائنس سے ہی صبر سکھایا جاتا ہے سائنسی سوچ ہی پروپیگنڈے کا توڑ ہے، سائنسی سوچ ہی دوسروں کا پوائنٹ آف ویو سننے کی ترغیب دیتی ہے، سائنسی سوچ ہی تحقیق کے بعد اپنی رائے بدلنے کا نام ہے، سائنس پڑھانے سے ہر ایک طالب علم سائنسدان نہیں بن سکتا ہے نہ سائنس پڑھانے کے یہی مقاصد ہیں مگر سائنسی سوچ پروان چڑھانے سے ہر ایک طالب علم معاشرے کا ایک مفید فرد بن سکتا ہے-
تو ہمارے لیے اپنے طالب علموں کو فارمولے رٹا کرنے سے ذیادہ انکو سائنسی سوچ اور سائنسی رویے سیکھانے کی ضرورت ہے- یہ اہم نہیں ہے کہ طالب-علم نے کتنے سوالات رٹا کیے ہیں یا سوال کا جواب صحیح دیا ہے کہ نہیں، کیونکہ جواب کا صحیح آنا حادثاتی بھی ہوسکتا ہے یا رٹا کا کمال، اہم یہ ہے کہ سوال کو اپروچ کیسے کیا گیا ہے، رویہ سائنسی رہا یا نہیں، کسی کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا اتنا ضروری نہیں جتنا خود سوالات پوچھنا ضروری ہے، نہ بنے بنائے جوابات کی کوئی اہمیت ہے سوالات بھی اپنے ہو جوابات کی تلاش بھی خود کرے- سائنسی رویے اور طریقہ کار سائنسی تربیت کے نتیجے میں پروان چڑھتے ہیں -

Comments

Popular posts from this blog

کیا جُرم اور گناہ میں فرق ہوتا ہے؟

علمی تَسلسٌل