فطرت سے شکست خوردہ معاشرہ

تصور کرلو کسی کو بھوک لگی ہے اور وہ یہ کہہ کر بھوک مٹانے سے انکار کردے کہ ابھی میری تعلیم مکمل نہیں ہے اسلئے کچھ کھانا نہیں ہے یا کسی کو واش روم آیا ہے اور وہ یہ کہے کہ ابھی نوکری نہیں ملی ہے اسلئے ابھی واش روم نہیں جاسکتا ہوں، نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی جو فطرت سے مقابلہ کرنے والوں کا نکلتا ہے، شرمندگی، احساس گناہ، احساس کمتری
مثال دینے کا مطلب یہ تھا کہ فطرت ناگزیر ہے، اس کو کسی اور فیکٹر سے جوڑنا نہیں چاہئے نہ روکنا چاہئیے، کوئی ہندو اپنی ساری مقدس کتابوں کا وِرد بھی کردیں تو واش روم کو نہیں روک سکتا ہے نہ کوئی عیسائی اور نہ مسلمان ایسا کرسکتا ہے مطلب فطرت کو نہ مذہب نے روکا ہے نہ روکنے کا کہا ہے، ہاں مطمئن کرنے کے طریقہ کار کو متعین کیا ہے، یہ کہ فطرت کو کیسے مطمئن کیا جائے اس پر ہر ایک مذہب نے حدود مقرر کیے ہیں -
بھوک، پیاس ہوس بہت اہم اور سب سے ضروری اور انتہائی ناگزیر فطرت انسانی ہیں، انسان کا وجود بنتے ہی بھوک اور پیاس کی ضرورت کا پابند ہوجاتا ہے اور بلوغت کے ساتھ ہی جنسی ضروریات کے تابع ہوجاتا ہے، بلوغت کے بعد جنسی ضروریات کو یہ کہہ کر روکنا کہ تعلیم مکمل نہیں ہے، نوکری نہیں ملی ہے فطرت سے لڑنے جیسا ہے، اور فطرت سے کوئی نہیں لڑ سکتا ہے، شکست ناکامی احساس گناہ اور احساس کمتری آپ کا مقدر ہے،
ہوس شکلیں بدل بدل کر حملہ آور ہونا شروع ہوجاتا ہے، ایسے طریقہ کا اختیار کرتا ہے جو مذہبی اور معاشرتی لحاظ سے کم قابلِ اعتراض ہو، کھبی یہ سچی محبت کا روپ دھار کر آجاتا ہے کھبی پکی محبت، اور کبھی روزانہ آپکو حاجت روائی کے تصورات کے رنگین دنیا میں دھکیل کر گھنٹوں دنیا و مافیہا سے لاتعلق کردیتا ہے، اور یا کھبی خوروں کی دنیا کی سیر کراکر اپکو نمازیں پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، اور دھوکا دیکر آپ کو باور کراتا ہے کہ آپکو سکون مل رہا ہے،
یا آپ کو جسموں کا شکاری بناتا ہے، پھر آپ حَسِین جسموں کا شکار راستوں، گلیوں فٹ پاتھ پر کرنا شروع کرتے ہیں یا تصورات میں، اگر دس بارہ سال آپ شکاری رہیں تو یہ پکی عادت بن جاتی ہے اور یہ عادت ساری زندگی رہتی ہے پھر شادی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی،
یا پھر معاشرے میں ایسے شاعر جنم لیتے ہیں جن کا موزوں باڈی پارٹس بن جاتے ہیں، مغربی معاشرے میں فطرت کو مطمئن کرنا ذیادہ آسان ہے اسلئے وہاں کی ذیادہ تر رومانوی شاعری انسانی اعضاء سے ہٹ کر ہوتی ہے ، اسلئے وہ چاند کو فزکس کے اصولوں سے دیکھتے ہیں اور ہمیں چاند میں اپنے محبوب کا چہرہ نظر آتا ہے، اور پھول کو سائنس یا فطرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہمیں پھول اور چہرے میں فرق نظر نہیں آتا ہے،
یہ معاشرہ فطرت سے شکست خوردہ معاشرہ ہے اس نے چاند پر نہیں جانا، اور نہ پھول پودوں پر ریسرچ کرنی ہے، یہ فطرت سے لڑرہا ہے اور روزانہ شکست سے دوچار ہے -
x

Comments

Popular posts from this blog

کیا جُرم اور گناہ میں فرق ہوتا ہے؟

علمی تَسلسٌل