Posts

جادو ہے نشہ ہے-

انسانی دماغ میں کئی ہارمونز ایک ہی وقت میں ہمارے حصے کو فنکشنل رکھتے ہیں اگر کوئی ہارمون ذیادہ مقدار میں ریلیز ہوجائے تو باقی ہارمونز کا فنکشن ڈارمنٹ ہوجاتا ہے ، اس قسم کے ایمبیلینس کو ہم نشہ بھی کہتے ہیں ، جہاں باقی ہارمونز اپنا اپنا فنکشن صحیح طریقے سے کرنا بند کرتے ہیں، شراب، چرس افیون وغیرہ ہمارے دماغ میں ہارمونز ایمبیلینس پیدا کرتے ہیں وہ سارے ایموشن یا جذبات جو آپ کے دماغ کو نارمل کام نہ کرنے دے وہ نشہ آور جذبات ہیں، یا خواہشات ہیں،  جو ہمارے دماغ کے لاجیکل پارٹ کو ڈارمنٹ کرتے ہیں- مذہب نے تمام نشہ آور چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، چاہے وہ شراب ہو یا افیون، یا چرس، یا نشہ آور ادویات ہو، یا نفرت ہو محبت ہو، بغض ہو کینہ ہو، لالچ ہو، مگر بہت سارے فلاسفرز اور سائنس دان مذہب کو یا آسان الفاظ میں اندھی تقلید کو خود نشہ قرار دے چکے ہیں، کیونکہ ایسی مذہبی تقلید جو سوچ سمجھ سے عاری ہو ہمارے دماغ کے ساتھ وہی کام کرتی ہے جو شراب کرتا ہے، جو صرف جنونیت اور تشدد کا سبب ہے، میری ناقص عقل کے مطابق،قیامت کے دن، شرابی، مذہبی جنونی، ہوس پرست عاشق، کامیابی کے دوڑ میں دوسروں کو روندنے والے، نف

Humanity is the best religion for mankind

People are Allah gift to Mankind, everyone has the same body and soul. By respecting people He created we are actually respecting the Creator. Hatred leads nowhere, love, caring go a long way. Man has no right to decide which religion is the best SINCE MOTHER Earth was created, she has seen herself being divided both naturally (into sub continents) and then selfishly (into countries). She must have never thought that a day would come one when she would be divided by her own children in the name of RELIGION. When a child is born, he has no conscious knowledge about himself or about the environment around him. He is an alien, an innocent soul. His body is made up of the same elements as that of Mother Nature. They have the same two hands, two legs; a heart to love and not to hate and even the colour of blood is the same. It is really hard to digest that people forget themselves as in the direct gift of the Creator and fight for land, for power and for little things that hardly matter i

Universal Truth!

Image

کوئی بیانیہ ذاتی ہے یا دشمنوں کا اسکو کیسے چیک کیا جائے؟

  جب کوئی سماجی یا سیاسی بیانیہ تخلیق ہوتا ہے تو بطور لسانیات کے سٹوڈنٹس ہمارے پاس یہ چیک کرنے کے لیے کچھ پیرامیٹرز موجود ہیں بعض پیرامیٹرز بہت ذیادہ سائنٹفک اور Systematic ہوتے ہیں اور ان پر کی گئی عقلی استدلال بہت ذیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے - کسی بھی بیانیے کے علاقائی یا غیر علاقائی وجود کو چیک کرنے کے لیے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیانیہ کس کس لیول پر موجود ہے - مثلاً کیا جو سیاسی یا سماجی بیانیہ میڈیا خاص طور پر  سوشل میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے کیا وہ دوسرے بیانیوں میں بھی موجود ہے کیا اسکی Representations علاقائی شاعری، علاقائی اور ثقافتی کہانیوں، ٹپے یا گانوں میں بھی ہے کہ نہیں، اگر یہ بیانیہ علاقائی طور پر مختلف صورتوں میں موجود ہے تو یہ الزام بے بنیاد بن جاتا ہے کہ اسکے پیچھے کوئی باہر کا دشمن ہے، کیونکہ علاقائی سطح پر خاص طور پر وہ لوگ جو نہ الیکٹرانک میڈیا سے متاثر ہیں نہ انھوں نے کبھی سوشل میڈیا استعمال کیا ہوا ان پر یہ الزام لگانا کہ انکے جذبات، احساسات اور درد کے پیچھے باہر کا دشمن ہے ایک عقل سے ماورا الزام اور استدلال ہے، ایسے احساسات اور جذبات کے عوامل لوکل لیول پر

علمی تَسلسٌل

علم کی ترقی ہمیشہ ایک علمی مناظرے اور ڈائیلاگ کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی ہے، ڈائلاگ ہمیشہ فریقین کے درمیان ہوا ہے ہر ایک ڈائیلاگ ایک آرگومنٹ کی شکل میں پیش ہوا ہے- آرگومنٹ ہمیشہ عقلی یا سائنسی دلائل (Premises) کی صورت میں ہوتا ہے، مخالف فریق ہمیشہ اُن دلائل میں کمزوری تلاش کرتا ہے جس پر ایک ڈائلاگ کھڑی کردی گئی ہوتی ہے، سارے عقلی اور سائنسی ڈائیلاگ ایک تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے ہیں - مطلب، علم ایک نہ ٹوٹنے والی کڑی کی صورت میں موجود ہے - اس تسلسل کو سمجھنا طالب علمی ہے اس میں اضافہ کرنا علم ہے اسی تسلسل کو سمجھانا استادی ہے، تسلسل کو چھوڑ کر درمیان میں نقب زنی کرنا جہالت ہے کسی ایک حصے کو علم سمجھنا منافقت ہے، کسی ایک حصے کو اپنے پست مقاصد کے لیے استعمال کرنا تخریب کاری ہے - ہر ایک علمی ڈائلاگ کے پیچھے اسکا فلسفہ ہوتا ہے اسکی ایک تاریخ ہوتی ہے اسمیں انقلابی سوچ اور تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوتی ہیں ہر ایک سوچ کے کچھ ماننے والے ہوتے ہیں اور کچھ پروموٹ کرنے والے -

کیا جُرم اور گناہ میں فرق ہوتا ہے؟

پولیس جب کسی جوان جوڑے کو پارک میں پکڑتی ہیں تو اس پر مقدمہ امن امان میں خلل ڈالنے کا درج کرتی ہے، اسلئے کہ قانون کی نظر میں کسی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ جوڑے کا آپس میں بیٹھنا، باتیں کرنا، گھومنا یا کھانا پینا کوئی جرم نہیں ہے، نہ پاکستانی قانون میں یا دنیا کسی اور جمہوریت میں اسکے لئے کوئی قانونی شق موجود ہے - مذہب اس طرح کی میل ملاپ کو گناہ سمجھتی ہے اور گناہ وہ خلاف ورزی ہے جس کا حساب کتاب اللہ تعالٰی کو دینا پڑتا ہے نہ کسی شخص کو، گروپ  کو یہاں تک کے ریاست بھی اسکی مجاز نہیں کہ اسکا حساب کتاب رکھیں - دنیا کا ہر ایک مذہب بشمول اسلام گناہ اور جرم میں فرق کرتا ہے ، ایسے تمام افعال جسکا اپنے علاوہ کسی اور کو نقصان ہورہا ہو وہ جرائم ہیں، اور مذہب نے حکومت وقت کو اجازت دی ہے کہ ایسے تمام جرائم قابل سزا بنائے، اور شہری قانون کا حلف لیکر ایسے تمام قوانین کے پاسداری کا وعدہ کرتے ہیں، آسان الفاظ میں تمام جرائم گناہ ہوتے ہیں مگر ہر ایک گناہ جُرم نہیں ہوتا- بہت سارے جرائم ریاست کی نظر سے چُھپ سکتے ہیں مگر اللہ تعالٰی روز قیامت انکی سزائیں متعین کریے گا اور کوئی بھی جُرم بغیر سزا یا تل

فطرت سے شکست خوردہ معاشرہ

تصور کرلو کسی کو بھوک لگی ہے اور وہ یہ کہہ کر بھوک مٹانے سے انکار کردے کہ ابھی میری تعلیم مکمل نہیں ہے اسلئے کچھ کھانا نہیں ہے یا کسی کو واش روم آیا ہے اور وہ یہ کہے کہ ابھی نوکری نہیں ملی ہے اسلئے ابھی واش روم نہیں جاسکتا ہوں، نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی جو فطرت سے مقابلہ کرنے والوں کا نکلتا ہے، شرمندگی، احساس گناہ، احساس کمتری مثال دینے کا مطلب یہ تھا کہ فطرت ناگزیر ہے، اس کو کسی اور فیکٹر سے جوڑنا نہیں چاہئے نہ روکنا چاہئیے، کوئی ہندو اپنی ساری مقدس کت ابوں کا وِرد بھی کردیں تو واش روم کو نہیں روک سکتا ہے نہ کوئی عیسائی اور نہ مسلمان ایسا کرسکتا ہے مطلب فطرت کو نہ مذہب نے روکا ہے نہ روکنے کا کہا ہے، ہاں مطمئن کرنے کے طریقہ کار کو متعین کیا ہے، یہ کہ فطرت کو کیسے مطمئن کیا جائے اس پر ہر ایک مذہب نے حدود مقرر کیے ہیں - بھوک، پیاس ہوس بہت اہم اور سب سے ضروری اور انتہائی ناگزیر فطرت انسانی ہیں، انسان کا وجود بنتے ہی بھوک اور پیاس کی ضرورت کا پابند ہوجاتا ہے اور بلوغت کے ساتھ ہی جنسی ضروریات کے تابع ہوجاتا ہے، بلوغت کے بعد جنسی ضروریات کو یہ کہہ کر روکنا کہ تعلیم مکمل نہیں ہے، نوکری نہی