Posts

Showing posts from November, 2018

Universal Truth!

Image

کوئی بیانیہ ذاتی ہے یا دشمنوں کا اسکو کیسے چیک کیا جائے؟

  جب کوئی سماجی یا سیاسی بیانیہ تخلیق ہوتا ہے تو بطور لسانیات کے سٹوڈنٹس ہمارے پاس یہ چیک کرنے کے لیے کچھ پیرامیٹرز موجود ہیں بعض پیرامیٹرز بہت ذیادہ سائنٹفک اور Systematic ہوتے ہیں اور ان پر کی گئی عقلی استدلال بہت ذیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے - کسی بھی بیانیے کے علاقائی یا غیر علاقائی وجود کو چیک کرنے کے لیے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ بیانیہ کس کس لیول پر موجود ہے - مثلاً کیا جو سیاسی یا سماجی بیانیہ میڈیا خاص طور پر  سوشل میڈیا پر پیش کیا جاتا ہے کیا وہ دوسرے بیانیوں میں بھی موجود ہے کیا اسکی Representations علاقائی شاعری، علاقائی اور ثقافتی کہانیوں، ٹپے یا گانوں میں بھی ہے کہ نہیں، اگر یہ بیانیہ علاقائی طور پر مختلف صورتوں میں موجود ہے تو یہ الزام بے بنیاد بن جاتا ہے کہ اسکے پیچھے کوئی باہر کا دشمن ہے، کیونکہ علاقائی سطح پر خاص طور پر وہ لوگ جو نہ الیکٹرانک میڈیا سے متاثر ہیں نہ انھوں نے کبھی سوشل میڈیا استعمال کیا ہوا ان پر یہ الزام لگانا کہ انکے جذبات، احساسات اور درد کے پیچھے باہر کا دشمن ہے ایک عقل سے ماورا الزام اور استدلال ہے، ایسے احساسات اور جذبات کے عوامل لوکل لیول پر

علمی تَسلسٌل

علم کی ترقی ہمیشہ ایک علمی مناظرے اور ڈائیلاگ کی شکل میں ظہور پذیر ہوئی ہے، ڈائلاگ ہمیشہ فریقین کے درمیان ہوا ہے ہر ایک ڈائیلاگ ایک آرگومنٹ کی شکل میں پیش ہوا ہے- آرگومنٹ ہمیشہ عقلی یا سائنسی دلائل (Premises) کی صورت میں ہوتا ہے، مخالف فریق ہمیشہ اُن دلائل میں کمزوری تلاش کرتا ہے جس پر ایک ڈائلاگ کھڑی کردی گئی ہوتی ہے، سارے عقلی اور سائنسی ڈائیلاگ ایک تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہوئے ہیں - مطلب، علم ایک نہ ٹوٹنے والی کڑی کی صورت میں موجود ہے - اس تسلسل کو سمجھنا طالب علمی ہے اس میں اضافہ کرنا علم ہے اسی تسلسل کو سمجھانا استادی ہے، تسلسل کو چھوڑ کر درمیان میں نقب زنی کرنا جہالت ہے کسی ایک حصے کو علم سمجھنا منافقت ہے، کسی ایک حصے کو اپنے پست مقاصد کے لیے استعمال کرنا تخریب کاری ہے - ہر ایک علمی ڈائلاگ کے پیچھے اسکا فلسفہ ہوتا ہے اسکی ایک تاریخ ہوتی ہے اسمیں انقلابی سوچ اور تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہوتی ہیں ہر ایک سوچ کے کچھ ماننے والے ہوتے ہیں اور کچھ پروموٹ کرنے والے -

کیا جُرم اور گناہ میں فرق ہوتا ہے؟

پولیس جب کسی جوان جوڑے کو پارک میں پکڑتی ہیں تو اس پر مقدمہ امن امان میں خلل ڈالنے کا درج کرتی ہے، اسلئے کہ قانون کی نظر میں کسی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ جوڑے کا آپس میں بیٹھنا، باتیں کرنا، گھومنا یا کھانا پینا کوئی جرم نہیں ہے، نہ پاکستانی قانون میں یا دنیا کسی اور جمہوریت میں اسکے لئے کوئی قانونی شق موجود ہے - مذہب اس طرح کی میل ملاپ کو گناہ سمجھتی ہے اور گناہ وہ خلاف ورزی ہے جس کا حساب کتاب اللہ تعالٰی کو دینا پڑتا ہے نہ کسی شخص کو، گروپ  کو یہاں تک کے ریاست بھی اسکی مجاز نہیں کہ اسکا حساب کتاب رکھیں - دنیا کا ہر ایک مذہب بشمول اسلام گناہ اور جرم میں فرق کرتا ہے ، ایسے تمام افعال جسکا اپنے علاوہ کسی اور کو نقصان ہورہا ہو وہ جرائم ہیں، اور مذہب نے حکومت وقت کو اجازت دی ہے کہ ایسے تمام جرائم قابل سزا بنائے، اور شہری قانون کا حلف لیکر ایسے تمام قوانین کے پاسداری کا وعدہ کرتے ہیں، آسان الفاظ میں تمام جرائم گناہ ہوتے ہیں مگر ہر ایک گناہ جُرم نہیں ہوتا- بہت سارے جرائم ریاست کی نظر سے چُھپ سکتے ہیں مگر اللہ تعالٰی روز قیامت انکی سزائیں متعین کریے گا اور کوئی بھی جُرم بغیر سزا یا تل

فطرت سے شکست خوردہ معاشرہ

تصور کرلو کسی کو بھوک لگی ہے اور وہ یہ کہہ کر بھوک مٹانے سے انکار کردے کہ ابھی میری تعلیم مکمل نہیں ہے اسلئے کچھ کھانا نہیں ہے یا کسی کو واش روم آیا ہے اور وہ یہ کہے کہ ابھی نوکری نہیں ملی ہے اسلئے ابھی واش روم نہیں جاسکتا ہوں، نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی جو فطرت سے مقابلہ کرنے والوں کا نکلتا ہے، شرمندگی، احساس گناہ، احساس کمتری مثال دینے کا مطلب یہ تھا کہ فطرت ناگزیر ہے، اس کو کسی اور فیکٹر سے جوڑنا نہیں چاہئے نہ روکنا چاہئیے، کوئی ہندو اپنی ساری مقدس کت ابوں کا وِرد بھی کردیں تو واش روم کو نہیں روک سکتا ہے نہ کوئی عیسائی اور نہ مسلمان ایسا کرسکتا ہے مطلب فطرت کو نہ مذہب نے روکا ہے نہ روکنے کا کہا ہے، ہاں مطمئن کرنے کے طریقہ کار کو متعین کیا ہے، یہ کہ فطرت کو کیسے مطمئن کیا جائے اس پر ہر ایک مذہب نے حدود مقرر کیے ہیں - بھوک، پیاس ہوس بہت اہم اور سب سے ضروری اور انتہائی ناگزیر فطرت انسانی ہیں، انسان کا وجود بنتے ہی بھوک اور پیاس کی ضرورت کا پابند ہوجاتا ہے اور بلوغت کے ساتھ ہی جنسی ضروریات کے تابع ہوجاتا ہے، بلوغت کے بعد جنسی ضروریات کو یہ کہہ کر روکنا کہ تعلیم مکمل نہیں ہے، نوکری نہی

تبلیغ میری نظر میں

مذاہب دنیا کے لئے بنائے گئے ہیں، مطلب اسلام بھی دنیاوی فائدے کیلئے آیا ہے، یہ سکھانے کے لئے کہ ایک جسمانی، نفسیاتی، روحانی اور سماجی طور پر کامیاب اور صاف ستھری زندگی کیسی گزاری جائے، جو لوگ دنیا میں کامیاب ہوگئے انکو انعام کے طور پر جنت دی جائے گی - مذہب کا فوکل پوائنٹ دنیا ہے آخرت نہیں، جو لوگ دنیا میں جسمانی اور نیتوں میں پاک صاف رہتے ہیں ہیں وہی جنت جائیں گے، دنیا کی گندی زندگی چاہے وہ عمل میں ہو یا نیتوں میں مذہب کے مقاصد سے متصادم ہے - اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اسلام عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ ہر ایک عبادت اور اصول ایک فنکشنل اصول پر کام کرتا ہے، مطلب جو چیزیں منع ہے وہ سماجی اور سائنسی لحاظ سے نقصان دہ اور جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسکے سماجی، جسمانی اور نفسیاتی فائدے ہیں، ہر ایک نبی اپنے وقت کے مطابق بات سمجھاتا ہے، چونکہ اسارے انبیاء پری سائنس ایج میں آئے تھے اسلئے کسی بھی مذہبی حکم کے پیچھے سائنسی لاجک سمجھانا مشکل تھا، اسلئے جنت اور دوزخ سے جوڑنا ضروری تھا، اگر انبیاء کا دور سائنسی دور ہوتا تو ہر ایک اصول کے پیچھے سائنسی لاجک بتاتے - مثال کے طور صفائی کا حک

بہترین نعت خواں

میرے پڑوس میں ایک شیطان صفت انسان رہتا ہے، پورا محلہ اسکی وجہ سے اذیت میں مبتلا رہتا ہے سارا سال، مگر ہر سال وہ ایک دفعہ محفل نعت کا بندوبست کرکے اپنے گناہ بخشوا دیتا ہے، اور لوگوں کو بتاتا بھی ہے کہ اس محلے میں میرے علاوہ سب جہنم جائیں گے،  کیا آپ لوگوں نے عمران علی، معصوم ذینب کے قاتل کا کیس فالو کیا تھا، وہ اپنے بیان میں پولیس کو بتاتا ہے کہ ذینب کا ریپ کرنے کے بعد وہ سیدھا محفل نعت میں جا پہنچا، رپورٹ بتاتی ہے کہ وہ ایک بڑا ثناء خوان تھا- مسئلہ کدھر ہے؟ قرآن کریم میں ذکر کرنے والوں اور بیان کرنے والوں میں فرق ظاہر کیا گیا ہے اہل بیان سے کہا گیا ہے کہ اگر قرآن مجید کی سمجھ نہیں آرہی ہے تو اہل ذکر سے پوچھ لو، زبانی بیانیے سے اہل ذکر والوں کا اتنا تعلق نہیں ہوتا ہے جتنا اہل کردار کا ہوتا ہے بے شک حضور اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کردار یا اسوہ سب سے افضل ہے، وہ سب سے ذیادہ رحیم، شفیق، کریم، مہربان صابر، وسعت قلب رکھنے والا، صادق اور امانت دار تھے، اگر ان صفات میں آپ میں کوئی بھی صفت پائی جاتی ہے تو آپ نبی کریم کا ذکر کررہے ہیں، آپ سب سے بڑے نعت خواں ہے اللہ تعالٰی نے یہی ذکر افضل